۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
ریاستِ مدینہ میں وارثانِ مدینہ کی شان میں گستاخیاں !

حوزہ/ پاکستان جو کہ اسلامی جمہوریہ کے نام پر معرضِ وجود میں آیا تھا اب نیا پاکستان ریاستِ مدینہ بننے جارہا ہے، اس ریاستِ مدینہ میں وارثانِ مدینہ بلکہ وارثانِ کائنات کے گستاخ آزادانہ طور دندناتے پھر رہے ہیں، کیا یہ صحیح ہے ؟

تجزیہ نگار: سید اعجاز اصغر 

حوزہ نیوز ایجنسییہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ ’’پاک سرزمین‘‘ کو اسلام کی مقدس شخصیات کی توہین کے لئے استعمال کیا جارہا ہے ’’مقدسات‘‘ کی توہین کا گند اب اس قدر پھیلتا جارہا ہے کہ ماضی میں  روہڑی کے ایک ملعون بڈھے نے ذلت و رسوائی کی انتہا کو چھوتے ہوئے ’’اللہ تعالیٰ‘‘ کی شان اقدس میں بھی گستاخیوں کی جرات کر ڈالی، اس ملعون کا پیدائشی نام تو ’’قاضی عبد الجلیل‘‘ تھا مگر بے ادبی، بدتمیزی اور گستاخانہ مائنڈ سیٹ کے تحت اس نے اپنا اسلامی نام ترک کرکے ’’امر جلیل‘‘ جیسا مشرکانہ نام رکھا، ’’امر‘‘ کے معنی نہ مرنے والے کے ہیں جو کہ صرف اللہ کی ذات ہے، اخبارات میں چھپے والی خبر کے مطابق  اس ملعون بڈھے کو بھارت نے سندھو  دیش اور پاکستان دشمن خیالات کے پرچار پر  اکھل بھارت سندھی سلہت سبھا نیشنل ایوارڈ سے بھی نوازا رکھا ہے۔
 
 علاوہ ازیں خبر یہ بھی شائع ہوئی کہ ایک کالے رنگ، کالے دل اور سیاہ نظریات رکھنے والے قادیانی نواز سیکولر انتہا پسند نے پاکستان کے مسلمانوں کو اپنے ٹویٹر پیغام میں دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ’’امر جلیل کے مخالفین کے لئے پاکستان میں جگہ نہیں بچے گی  اور جلیل ہمارا باپ ہے ، وہ ہماری آواز اور ہمارا ضمیر ہے‘‘ اس سیکولر انتہا پسند کے گمراہ نظریات کی وجہ سے پاکستانی عوام کو شک تو پہلے سے ہی تھا  مگر اس ٹویٹ کے بعد تو انہیں یقین ہوگیا کہ  یہ باپ ’’بیٹا‘‘ دونوں ہی بدبخت ہیں، اس سیکولر انتہا پسند لکھاری کو کوئی بتائے کہ تمہیں اپنے باپ کو سمجھانا چاہیے تھا،  تاکہ و ہ اللہ رب العزت کی شان میں گستاخیوں سے باز رہتا  تمہارا بے ادب اور ملعون باپ اگر اللہ رب العالمین کی شان اقدس میں گستاخانہ جملے بکے گا تو مسلمان اسے صرف اس لئے برداشت کرلیں کہ چونکہ وہ تمہارا باپ ہے , اس لئے اسے کچھ نہ کہا جائے؟

 ہرگز نہیں، تیرے ملعون  باپ نے اللہ پاک کی جو توہین کی ہے اس پر اسے انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا، سیکولر انتہا پسند وجاہت مسعود کو چاہیے کہ وہ گستاخ بڈھے کی حمایت میں اس کے گستاخانہ خیالات کے مخالف مسلمانوں کو دھمکیاں دینے کی بجائے ’’دلیل‘‘ سے بات کرے۔

بالکل اسی طرح کا سلسلہ گستاخیاں کرنے کا جاری ہے؛ فرقہائے اسلام کے نزدیک مقدسات کی توہین و گستاخی کی شدید مذمت ہو چکی ہے، دشمنِ اسلام مابین اسلامی ممالک رخنہ اندازیاں کرنے کی غرض سے اپنے مذموم مقاصد سے پیچھے ہٹنے کو ہر گز تیار نہیں ہے، وہ مسلم اتحاد سے انتہائ خوفزدہ رہتا ہے, اسی لئے دشمنِ اسلام آئے روز کوئی نہ کوئی چھیڑ چھاڑ کرنا اپنا فطری عمل اور مشن سمجھتا ہے، بالخصوص پاکستان کے شیعہ سنی فساد کرانے کا ہر صورت حربہ اختیار کرنا دشمنِ اسلام کی شدید خواہشات اور دیرینہ مقاصد میں سے شامل ہے، مگر الحمد للہ اب وطنِ عزیز پاکستان میں لوگ تعلیم یافتہ،باشعور اور اعتدال پسندانہ رویہ اپنا چکے ہیں، اہلسنت و اہل تشیع محمد و آل محمد علیھم سلام کی والہانہ محبت سے سرشار ہوکر وطنِ عزیز کو گلدستہ امن بنانے میں حتٰی الوسع کوشاں ہیں، مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ جب بھی محرم الحرام آتا ہے پاکستان کے امن و امان کو خراب کرنے کے لئے پاکستان کی دشمن قوتیں متحرک ہوکر شیعہ سنی فساد برپا کرنے کا ہر سال اعادہ کرتی آرہی ہیں، اگر حکومتِ پاکستان اپنے ملک کے امن و امان کو ترجیح دینے میں کوتاہی نہ کرتی، ان ملک دشمن عناصر کو بروقت نکیل ڈالنے کے اقدامات کرتی تو آج عبدالرحمٰن سلفی گستاخِ اہلبیت ملک دشمن قوتوں کا ایجنٹ ہر گز ہر گز نہ بنتا, دنیا کے دیگر ممالک میں جب بھی کوئی غدار سامنے آتا ہے اس کو فوراً کیفرِ کردار تک پہنچا دیا جاتا ہے، افسوس ہے کہ پاکستان میں وقتی طور پر حکومتی سطح پر محض کاروائی عمل میں لائی جاتی پھر اُن گستاخوں، غداروں اور ملک دشمن ایجنٹوں کا نہ کوئی عدالتی ٹرائل ہوتا ہے نہ کوئی سنگین سزا دیکر آئیندہ کے لئے عبرت کا نشان بنایا جاتا ہے، حکومتی مشینری اس وقت متحرک ہوتی ہے جب ملک گیر احتجاجی مظاہرے کئے جاتے ہیں, میرے خیال میں آئے روز احتجاجی مظاہرے حکومت کی ناکامی اور کمزوری کا ثبوت پیش کرتے ہیں، اور عالمی سطح پر ملک کی بدنامی اور ہرزہ سرائی ہوتی ہے، کافی دن ہو چکے ہیں ملعون عبدالرحمٰن سلفی کی گستاخانہ ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہے مگر حکومت وقت کی بے حسی کی انتہا ہے کہ ابھی تک اس کو گرفتار کرنے میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کررہی ہے, مجبور ہو کر مورخہ 9 جولائی بروز جمعہ 2021 کو ملتِ تشیع و ملتِ تسنن کے قائدین اپنی عوام کو سڑکوں پر لاکر ملعون عبدالرحمٰن سلفی کی گرفتاری کا تقاضہ کرے گی, آیا اس احتجاجی مظاہرے پر پاکستان جو کہ اسلامی جمہوریہ کے نام پر معرضِ وجود میں آیا تھا اب نیا پاکستان ریاستِ مدینہ بننے جارہا ہے، اس ریاستِ مدینہ میں وارثانِ مدینہ بلکہ وارثانِ کائنات کے گستاخ آزادانہ طور دندناتے پھر رہے ہیں، جائز ہے  ؟

وارثانِ کائنات کی شانِ اقدس حضرت آدم علیہ سلام سے ہی دریافت کرلیتے ہیں کہ تاریخِ انسانی میں مرقوم ہے کہ حضرت آدم علیہ سلام نے اپنے پروردگار سے معذرت کے چند الفاظ سیکھے, ( بحوالہ سورہ بقرہ آیت نمبر 37 )  یعنی حضرت آدم علیہ سلام نے شاقِ عرش پر محمد و آل محمد علیھم سلام کے ناموں کو تحریر پایا, تو جبریل علیہ سلام نے حضرت آدم علیہ سلام کو مشورہ دیا کہ ان اسمائے مبارکہ کو مناجات اور توبہ کے وقت وردِ زباں اور حرزِ جاں بنا لو۔

حضرت آدم علیہ سلام ان درج ذیل الفاظ سے ورد کرنا شروع کیا؛

اے تعریف شدہ خدا تجھے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا واسطہ, اے خالق,  تجھے فاطمتہ الزاہرا سلام اللہ علیھا کا واسطہ, اے احسان کرنے والے تجھے حسن و حسین علیھم سلام کا واسطہ, اور احسان فقط تیری جانب سے ہے, 
جب نامِ حسین علیہ سلام آیا تو جبریل و آدم علیھم سلام ہر دو کے دل مغموم و مخزون ہو گئے اور آنکھوں سے اشک رواں ہو گئے, آدم علیہ سلام نے اس کی وجہ دریافت کی تو جبریل امین نے واقعہ کربلا اور خامسِ انوارِ خدا پر آنیوالے مصائب و آلام کو بیان کیا, پھر وہ دونوں محبوبِ خدا و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حسین علیہ سلام کو آئیندہ پیش آنے والے اس سانحہ فاجعہ پر ایسے گریہ کناں ہوئے جیسے کوئی بوڑھی ماں اپنے جواں سال بیٹے کی موت پر روتی ہے۔

حضرت آدم اور حضرت جبریل علیھم سلام غمِ حسین علیہ سلام پر غمزدہ اور گریہ کناں ہوئے ہیں تو ان دو ہستیوں پر رونے پیٹنے کا فتوٰی  ہر گز سنی نہیں لگائے گا , بلکہ شیعہ سنی کا دشمن ہی فتوٰی لگائے گا, صاف ظاہر ہے شیعہ سنی کا دشمن مسلمان نہیں ہوگا بلکہ دشمنِ اسلام ہی ہوگا۔

ولی اللہ محدثِ دہلوی اہلِ سنت کے مستند و جید عالم ہیں, اپنی مشہور کتاب  ,  ازالتہ الخلفاء,  جلد نمبر 1 , صفحہ نمبر 153 میں لکھتے ہیں کہ حضرت علی مرتضٰی علیہ سلام نے فرمایا کہ یہ قرآن خاموش ہے اور میں قرآن بولنے والا ہوں,  یعنی مولا علی علیہ سلام ناطقِ قرآن ہیں,,,  تاریخ الخلفاء,  جلال الدین سیوطی, میں موجود ہے, جو کہ اہلِ سنت کی معتبر کتاب و راوی ہے۔

ثابت ہوا کہ قرآنِ صامت کتابی صورت میں ہے اور قرآنِ ناطق ( بولنے والے ) محمد و آل محمد علیھم سلام ہیں, بارہ امام چودہ معصوم علیھم سلام کو قرآنِ ناطق ماننا شیعہ سنی عقائد میں واجب ہے اور فرضِ عین ہے, قرآن و ناطقِ قرآن کا منکر و گستاخ کافر ہی ہو سکتا ہے, مسلمان ہر گز نہیں ہوسکتا۔

تو عبد الرحمٰن سلفی ملعون کافر خنزیر اور کتا ہے, اس کا مذہبِ اسلام سے قطعاً کوئی تعلق واسطہ نہیں رہا ہے, غیر ملکی ایجنسیوں کا آلہ کار اور ایجنٹ ہے, جس نے ناطقِ قرآن حضرت امام موسٰی کاظم علیہ سلام کے خلاف بد زبانی اور گستاخی کی ہے, جو ناقابلِ بیان ہے, چاہتا ہوں کہ ساتویں تاجدارِ امامت کے بارے چند الفاظ تحریر کرتا چلوں تاکہ ملعون سلفی کو معلوم ہو جائے کہ ناطقِ قرآن کی شانِ اقدس کیا ہے۔ 

امام موسٰی کاظم علیہ سلام حق گوئی, ایمان, تقوٰی اور اپنی مقبولیت کے جرم میں قید ہوئے, آپ کا ایک ملفوظ ہے, آپ نے اپنے حامیوں میں سے کسی کو مخاطب کرکے فرمایا,  دیکھو خدا کے غضب سے ڈرتے رہو, ہمیشہ حق بات کہو,  چاہے اس کا انجام بربادی ہی کیوں نہ نظر آئے کیونکہ دراصل اسی میں تمہاری نجات ہے,۔
شیخ مفید علیہ رحمہ امام موسٰی کاظم علیہ سلام کے بارے میں کہتے ہیں وہ اپنے زمانے میں سب سے زیادہ عبادت گزار, سب سے بڑے فقیہ, سب سے زیادہ فیاض, سب سے زیادہ باوقار تھے, ہمیشہ بارگاہِ خداوندی میں تضرع اور اظہارِ عاجزی کرتے رہتے تھے, اکثر فرمایا کرتے تھے۔ یااللہ میں موت کے وقت راحت اور حساب کے وقت معافی کا خواستگار ہوں۔

ملعون عبدالرحمٰن سلفی نے ناطقِ قرآن حضرت امام موسٰی کاظم علیہ سلام کی گرفتاری پر جو بد زبانی کی ہے اس کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

اہلسنت کے مولانا رومی نے اپنی مثنوی کے دفترِ اول میں ایک قصہ بیان کیا کہ حضرت یوسف علیہ سلام کے مصائب میں گرفتار ہونے, کنوئیں میں گرنے, غلام بن جانے, اور برسوں قید رہنے کے بعد ان کے بچپن کا ایک دوست ان سے ملنے آیا۔ 

مولانا رومی کہتے ہیں: یوسف صدیق کا ایک عزیز دوست جس سے بچپن کی واقفیت تھی کہیں باہر سے آکر آپ کا مہمان ہوا, اس نے اپنے بھائیوں کا ظلم اور حسد یاد دلایا, آپ نے کہا کہ ہم شیر ہیں اور وہ واقعات زنجیر تھے, شیر کو اگر زنجیر سے باندھ دیا جائے تو اس کی شان میں فرق نہیں پڑتا, شیر کی گردن میں زنجیر بھی ہو پھر بھی وہ زنجیر پہنانے والوں پر بھاری رہتا ہے۔

دوست نے پوچھا جب آپ قید میں تھے اور کنوئیں میں تھے اس وقت کیا صورت تھی  ؟ 

حضرت یوسف نبی نے فرمایا, وہی جو چاند کی اس وقت ہوتی ہے, جب وہ گھٹتا ہے اور غائب ہو جاتا ہے, لیکن پھر پورا چاند بن کر آسمان پر چمکتا ہے, گیہوں کو مٹی کے نیچے دبا دیتے ہیں لیکن وہ مٹی سے ابھرتا ہے, اور اس خوشے لگتے ہیں, پھر اسے چکی میں پیسا جاتا ہے, لیکن اس کی قدرو قیمت بڑھتی ہے, اور وہ روٹی بن جاتا ہے, پھر روٹی کو دانتوں سے چباتے ہیں, وہ حیات اور عقل و سمجھ بن جاتی ہے۔

اس لحاظ سے حضرت یوسف علیہ سلام کی زندگی کا کچھ عرصہ قید خانے میں گزرا, حضرت امام موسٰی کاظم علیہ سلام بن امام جعفر صادق علیہ سلام کا حال بھی حضرت یوسف نبی سے مشابہ ہے, جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے کہ حضرت یوسف علیہ سلام پر زنانِ مصر نے دباؤ ڈالا, آپ علیہ سلام نے اپنے گوہرِ ایمان کو محفوظ رکھنے اور لباسِ تقوٰی کو آلودگی سے بچانے کے لئے قید خانے کی آرزو کی۔

آئمہ اہلبیت علیھم سلام میں سے امام موسٰی کاظم علیہ سلام اس جرم میں کہ لوگوں کو ان سے محبت تھی اور وہ ان کو ہارون سے زیادہ لائق سمجھتے تھے, برسوں قید میں رہے, فرق یہ رہا کہ یوسف علیہ سلام تو آخر قید خانے سے آزاد ہو گئے لیکن ہارونی حکومت نے آخر کار امام موسٰی کاظم علیہ سلام کو قید خانے میں ہی زہر دے کر شہید کردیا۔

امام موسٰی کاظم علیہ سلام کی عظمت کا ایک اور جملہ ملاحظہ ہو تاکہ دشمنِ آلِ رسول علیھم سلام اپنی بدبختی پر ماتم کرنے پر مجبور ہو جائے۔

امام موسٰی کاظم علیہ سلام کو ایک سال تک بصرہ میں بھی قید رکھا گیا تھا, ہارون ملعون نے اپنے ملازم سپاہی عیسٰی کو حکم دیا تھا کہ قید خانے میں ہی امام علیہ سلام کا کام تمام کردے, لیکن عیسٰی تیار نہ ہوا, اُس نے ہارون کو جواب میں لکھا کہ میں نے ایک سال میں امام موسٰی کاظم علیہ سلام کو ہمہ وقت عبادت میں ہی مشغول پایا ہے, یہ عبادت سے کبھی نہیں اکتاتا, میں نے کچھ لوگوں کو اس بات پر مامور کیا کہ یہ دیکھیں کہ یہ اپنی دعاؤں میں ہارون الرشید پر یا موسٰی سپاہی پر لعنت و نفرین تو نہیں کرتا, مجھے معلوم ہوا کہ وہ اپنے لئے خدا سے رحمت و بخشش کی طلب کے سوا اور کوئی بات زبان سے نہیں نکالتا, میں ایسے شخص کے قتل میں شریک ہونے کے لئے تیار نہیں ہوں, میں ایسے شخص کو قید خانے میں بھی رکھنا نہیں چاہتا,  یا تو آپ اس کو واپس لے لیں ورنہ میں رہا کردونگا ,ہارون الرشید امام علیہ سلام کو بصرے سے بغداد لاکر فضل بن ربیع کے قید خانے میں رکھا, فضل بن ربیع نے بھی امام موسٰی کاظم علیہ سلام کی سیرتِ طیبہ سے متاثر ہو کر قتل کرنے سے معذرت کرلی, پھر فضل بن یحیٰی نے اپنے مکان امام علیہ سلام کو قید کردیا, وہ امام معصوم کی عبادت, ریاضت اور تقوٰی و روزہ سے متاثر ہو کر احترام و ادب کرنے پر مجبور ہو گیا, اس ادب احترام کی پاداش میں ہارون الرشید نے فضل بن یحیٰی کو کوڑے مارنے کی سزا دی, آخر کار ملعون ہارون الرشید نے امام علیہ سلام کو سندی بن شاہک کے حوالے کردیا , سندی کے ہی قید خانے میں امام موسٰی کاظم علیہ سلام کو زہر دے کر شہید کردیا گیا۔

عبدالرحمٰن سلفی یقیناً سندی بن شاہک کی پلید نسل میں سے ہے, اس کو گستاخی پر آمادہ کرنے والے ہارون الرشید ملعون کی نسل میں سے ہی ہیں, قرآن و ناطقِ قرآن کی ناموس کا تحفظ, احترام اور محبت کرنے حلال زادے حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس خنزیر کو فی الفور گرفتار کرکے سزائے موت دی جائے, تاکہ معلوم ہو جائے کہ ریاستِ مدینہ میں مقدسات کی گستاخی کرنے والوں کے کوئی رعایت, جگہ, آرام, آسائش اور سکون میسر نہیں ہے۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .